واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت شیخ محمد عارف ردولوی

رحمتہ اللہ علیہ

حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  حضرت شیخ احمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  کے بیٹے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  ہی نے سلسلہ چشتیہ کو فروغ بخشا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے مرتبے کا ہر شخص قیاس کرسکتا ہے کہ شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  جیسا شخص آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی مریدی میں آئے اور زیرتربیت رہے۔ کیا اعلٰی مرتبہ ہوگا جن کے مریدحضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  جیسے ہوتے ہوں وہ پیر کیسے ہونگے۔

شیخ رکن الدین لطائف قدسی میں فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت شیخ عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  کا ارادہ تھا کہ وہ کسی دوسری جگہ بیعت کریں کیونکہ شیخ محمد صاحب سے رشتہ داری تھی اور اسی وجہ سے ان کی توجہ حضرت شیخ محمد کی طرف کم تھی۔ جب دوسری جگہ مرید ہونے کا دل میں خیال آیا تو حضرت شیخ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ  مراقبے میں ظاہر ہوکر فرماتے کہ تو میرا ہوکر دوسری جگہ کا ارادہ رکھتا ہے۔ پھر فرمایا اگر یہ خیال ظاہری بیعت کا ہے تو میرے پوتے شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  سے بیعت کر۔ اس کے بعد میرے والد نے میرے ماموں حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  سے بیعت کی۔ اگرچہ حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  میرے والد کے پیر تھے مگر بوجہ میرے والد کے بڑے بہنوئی ہونے کے بہت عزت وتکریم فرماتے تھے۔

حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  بھی اپنے والد اور جد امجد کی طرح ہمیشہ سکر اور استغراق میں رہتے تھے۔ ہر جمعہ کو صبح کی نماز جامع مسجد میں ادا کرتے ۔ تمام دن جامع مسجد میں مشغول رہتے کسی سے بات نہ کرتے جب جمعہ کا وقت آتا نماز ادا کرکے پھر مشغول ہوجاتے۔ پھر اسی طرح عصر کی نماز ادا کرتے اور پھر نماز مغرب ادا کرکے  جامع مسجد سے خانقاہ تشریف لاتے۔ اپنی تمام عمر میں چاندی یا سونے کو ہاتھ نہ لگایا۔ خانقاہ میں جو کچھ بھی آتا خدام کو حکم تھا کہ شام تک کل خرچ ہوجائے اور کل کے واطے کچھ نہ بچے۔ جو مسافر یا فقیر خانقاہ میں آتا تھا اس سے نہایت مہربانی سے پیش آتے اور جو کچھ سامنے موجود ہوتا فرماتے کہ اس کو اٹھا لو۔

ایک روز ایک ضعیف عورت حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا کہ میرے اوپر کئی فاقے گزرچکے ہیں اتنی بھی ہمت نہیں کہ کمہار سے ایک کوزا مٹی کا لے کر پانی پی سکوں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  مردان خدا اور سخی مشہور ہیں میری دستگیری کیجیے۔ اسی وقت ایک زمیندار آیا  اور تھوڑا سا غلہ حضرت کے روبرو رکھ کر چلا گیا۔ حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  نے وہ غلہ اپنے وضو کی بدہہنی میں ڈال کر اسے دےدیا اور کہا کہ جاکے اس سے کھاتے رہنا۔  وہ بڑھیا جب تک زندہ رہی اسی بدہہنی سے اناج نکال کر کھاتی رہی لیکن اس بدہہنی کا غلہ کبھی کم نہ ہوا۔

صاحب لطف قدوسی فرماتے ہیں کہ آخری عمر میں جب حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  کے اوپر نزاع کا وقت طاری ہوا تو انہوں نے اس وقت اپنے فرزند کلاں شیخ کو طلب کیا حاضرین نے عرض کی کہ حضور وہ شادآباد میں شیخ عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  کے پاس پڑھتے ہیں۔ ان سے فوری رابطہ ممکن نہیں۔ اسی دوران حضرت شیخ احمد عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ  نے میرے والد عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  کو فرمایا کہ کلاں شیخ کو لے کر فوراً رودلی پہنچو۔ چنانچہ میرے والد فوراً شیخ کلاں کو لے کر رودلی کی طرف چل دیے۔ جس وقت میرے والد رودلی پہنچے تو اس وقت حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  کا وقت قریب تھا اور وہ حالت استغراق میں تھے۔ میرے والد نے عرض کیا کہ یہ وقت ہوشیاری مردان خدا کا ہے۔ حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  نے جواب دیا کہ اس وقت سوائے ذات حق کے میرے سینے میں کچھ نہیں سماتا۔  پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور خرقہ خلافت اور جملہ چیزیں امانت پیران چشت ما اسم اعظم میرے والد کو مرحمت فرمایا اور اپنا جانشین بنایا۔ میرے والد حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  نے عرض کی مجھے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی جدائی کیسے گوارا ہوگی۔ حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایا تجھ کو کیا ڈر ہے تو تو اولیا حق سے ہے میری جگہ تیری جگہ ہے۔ جہاں جی چاہے رہو میں تجھ سے ہرگز جدا نہیں ہوں۔ اور میں اپنے فرزند کی تربیت تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ اس کو اسرار باطنی سے آگاہ کردیجیے۔

حضرت شیخ محمد عارف رحمتہ اللہ علیہ  یہ وصیت تمام کرکےباخوشی حق حق کہتے ہوئے اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا سن وفات کا ذکر کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ حضرت شیخ رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ میرے والد شیخ عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  نے مخدوم زادہ شیخ کلاں کو اپنے پیر صاحب کا سجادہ نشین مقرر کیا اور پھر چند روز کے بعد خود گنگوہ تشریف لے گئے۔